اسلامی نظریاتی کونسل آزادجموں وکشمیر کی موجودہ کونسل کا الوداعی اجلاس پیر کے روز چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل وچیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی زیر صدارت سپریم کورٹ بلڈنگ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر چوہدری انوار الحق نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور خطاب کیا۔ اجلاس میں اراکین کونسل مفتی سید کفایت حسین نقوی، مولانا سعید یوسف خان، مولانا صاحبزادہ پیر محمد حبیب الرحمن محبوبی، مولانا قاضی محمود الحسن اشرف، مولانا مفتی محمد حسین چشتی، مولانا مفتی محمد عارف، مولانا الطاف حسین سیفی، مولانا قاری محمد اعظم عارف،سیکرٹری مذہبی امور سردار ظفر خان، سیکرٹری قانون چوہدری محمد سجاد، سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل حافظ رحمت اللہ تصور ودیگر متعلقہ حکام بھی شریک ہوئے۔اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل وچیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا کہ آج موجودہ کونسل کا الوادعی اجلاس ہے جس میں شرکت پر میں اراکین کونسل کی جانب سے وزیرا عظم آزاکشمیر کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ سربراہ ریاست اور حکومت کے اس طرح کے آئینی و خصوصی ادارہ جات کے اجلاس ہا میں شرکت کرنے سے انہیں نہ صرف ادارہ جات کی کارکردگی سے آگاہی حاصل ہوتی ہے بلکہ ادارہ جات کی اہمیت و افادیت میں بھی اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ موجودہ کونسل کی تشکیل اپریل 2022 میں تین سال کے لیئے ہوئی اور آج اس کونسل کا آخری دن اور الوداعی اجلاس ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کا یہ آزاد خطہ 1947 میں ریاست کے لوگوں نے بزور بازو برصغیر میں دو قومی نظریہ کی اساس پر آزاد کروایا تا کہ یہاں پر غالب مسلمان اکثریتی آبادی بغیر جبر کے اسلامی طرز زندگی اور معاشرت اپنا سکیں۔ آزاد ریاست جموں و کشمیر کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اسلامی دنیا میں سعودی عرب کے بعد پہلی بار یہاں اسلامی تعزیراتی قوانین نافذ کیے گئے۔ 1974ء میں نافذ کردہ ایکٹ کے تحت قتل، ضرر اور سرقہ جیسے جرائم پر اسلامی سزائیں مقرر کی گئیں۔ اسی تسلسل میں آزاد کشمیر زکوٰۃ ایکٹ 1974ء اور آزاد کشمیر زکوٰۃ پیداوار اراضی ایکٹ 1974ء کا نفاذ بھی عمل میں آیا۔ اسلامی اصولوں کے مطابق ان قوانین کے اطلاق کے بعد حکومت کو غیر معمولی نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جن کے حل کے لیے ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی جو اسلامی قوانین کی تعبیر و تشریح میں معاون ثابت ہو۔ ریاست کے معرضِ وجود میں آنے کے بنیادی مقاصد کے حصول کی طرف ایک اہم سنگِ میل 08 جون 1978ء ہے جب اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی طرز پر آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ آئین کے مطابق آزاد ریاست میں کوئی بھی قانون سازی اسلامی تعلیمات،فلسفہ اور اصولوں کے منافی نہیں کی جائے گی اور ان تمام نافذ العمل قوانین کو اسلام کی اُن تعلیمات سے ہم آہنگ کیا جائے گا جو قرآن و سنت میں بیان کی گئی ہیں۔ اِن آئینی مقاصد کی تکمیل کے لیئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرز پر سال 1978ء میں آزاد ریاست میں “اسلامی نظریاتی کونسل “کا قیام عمل میں لایا گیا تا کہ حکومت اس کونسل کی مشاورت اور سفارشات کی روشنی میں نہ صرف قانون سازی اسلام کی تعلیمات کے مطابق کرے گی بلکہ ریاست کے باشندگان کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنے اور اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیئے بھی عملی اقدامات کرے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کونسل کے قیام سے لے کر تاحال جہاں اس کونسل کی سربراہی چیف جسٹس صاحبان سپریم کورٹ کرتے چلے آرہے ہیں وہیں اس کونسل میں آزاجموں وکشمیر کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے صاحب تحقیق، صاحب الرائے جید علماء و مشائخ بطور رکن خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ موجودہ کونسل بھی مستند صاحب الرائے شخصیات پر مشتمل ہے جن کی بدولت نہ صرف کونسل اپنا کام مؤثر انداز میں کر رہی ہے بلکہ کونسل کے فورم سے آزادکشمیر میں بین المسالک ہم آہنگی بھی مثالی رہی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ آزادجموں وکشمیر عبوری آئین 1974ء میں تیرہویں ترمیم کے ذریعہ اس کونسل کو آئینی ادارہ قرار دیا جا چکا ہے۔ آئینی حیثیت حاصل ہونے کے بعد اس کونسل کی اہمیت پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعہ آزادجموں وکشمیر عبوری آئین 1974ء میں
آرٹیکل 32 کے علاوہ آرٹیکل3۔اے تا 3۔ جے بطور اساسی اصول شامل ہیں۔ بالخصوص 3۔سی کہ جس کے تحت ریاست نے عہد کیا ہے کہ وہ باشندگان ریاست کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کے لیئے موثراقدامات کرے گی۔
یہ عہد آزاد جموں و کشمیر میں اسلامی قوانین کی عملداری اور ان کے استحکام کی جانب ایک غیر معمولی پیش رفت ہے جو یہاں اسلامی تشخص و اقدار کی ترویج اور شرعی قوانین کی پاسداری کے حوالے سے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل جسے 2018 میں آئینی حیثیت بھی عطا کی گئی، آج بھی ان ہی وسائل اور سٹاف کے ساتھ آئینی فرائض انجام دے رہی ہے جو سال 1978ء میں فراہم کیئے گئے اور جنہیں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان250 سے زائد عملہ کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ وسائل اور سٹاف کی کمی کے باعث کونسل کا تحقیقاتی کام اور قواعد کے تحت تواتر کے ساتھ اجلاس ہا کے انعقاد میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ قیام سے لیکر ہی ان مشکلات کے تدارک کے لیئے صدور گرامی اور وزراء اعظم (وقت) کی سربراہی میں متعدد اعلیٰ سطحی اجلاس ہا کے دوران اصولی فیصلہ جات کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کونسل نے بھی وسائل،سٹاف اور دفتری مکانیت کی شدت سے کمی محسوس کرتے ہوئے اس پر پیش رفت جاری رکھی۔ کونسل کے لیئے یہ امر باعث اطیمنان ہے کہ آپ نے کونسل کے تصفیہ طلب امور کو کابینہ کے اجلاس میں پیش کرنے کے علاوہ کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ کونسل یقین رکھتی ہے کہ ان شاء اللہ کونسل کی جانب سے پیش کردہ انتہائی ناگزیر امور آپ کی خصوصی توجہ اور دلچسپی سے یکسو ہوں گے جس سے نہ صرف کونسل کی مشکلات میں کمی واقع ہو گی بلکہ کونسل مزید بہتر انداز میں اپنے آئینی فرائض ادا کر سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں معزز اراکین کونسل کا مشکور ہوں کہ جنہوں نے مراعات کی پرواہ کیئے بغیر قومی فریضہ کے طور پر ریاست میں نافذ العمل قوانین کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے،اسلامی معاشرہ کی تشکیل اوربین المسالک مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیئے اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کیا۔ یہ اجلاس محض ایک اختتام نہیں ہے بلکہ اس کونسل کے روشن اور فعال مستقبل کے لیے سنگِ میل اور آغاز کی حیثیت رکھتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل انتہائی اہم اور آئنی ادارہ ہے۔ آزادکشمیر میں بین المسالک ہم آہنگی اور فرقہ واریت کے خاتمہ میں اس ادارے کا کلیدی کردار ہے۔ اس ادارہ میں کام کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ اس ادارے کے وقار میں اضافے کے لیے حکومت اسکی ضروریات شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم بنیادوں پر پوری کرے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کونسل کے اراکین نے اپنی تین سالہ مدت میں بہترین انداز میں کام کیا اور کسی بھی معاملہ پر تنازعہ نہیں ہوا جس پر تمام اراکین کونسل مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس اس ادارے کی بہترین اور اس کے وقار کے لیے ہم سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ ہمیں ریاست کے معاشی مسائل کا ادراک ہے۔ لیکن ادارے ریاست کی پہچان ہوتی ہیں انکی عمارتیں اداروں کے وقار میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں۔ حکومت اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی ضروریات پوری کرنے کے اقدامات کرے تاکہ اراکین کونسل کو بیٹھنے اور کام کرنے کے لیے سازگار ماحول میسر آ سکے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آزادکشمیر کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل کی دفتری مکانیت اور افرادی قوت سمیت تمام ضروریات پورا کرنے کی یقین دہانی کو اراکین کونسل کی جانب سے سراہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی جملہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق نے کہا کہ کہ ریاست میں مذہبی ہم آہنگی اور اتفاق واتحاد پیدا کرنے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے. آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظریاتی کونسل ایک ایسا ادارہ ہے جس کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام موجود ہوتے ہیں. ان خیالات کا اظہار وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق نے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر و چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی زیرصدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے الوداعی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا. آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظریاتی کونسل کے الوداعی اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی. وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل انتہائی اہم ادارہ ہے. انہوں نے کہا کہ کونسل سے آنے والی سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے. وزیراعظم نے کہا کہ کونسل کے اراکین کی جانب سے تیار کی جانے والی سفارشات اور ان کی خدمات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں. انہوں نے کہا کہ معاشرے میں بہتری لانے کیلئے علماء کرام کا کردار قابل تحسین ہے. وزیراعظم نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظریاتی کونسل کے لئے ترجیحی بنیادوں پر مکانیت, سٹاف اور فنڈز مہیا کیئے جائیں گے.اجلاس سے اپنے خطاب میں اراکین کونسل نے بین المسالک ہم آہنگی اور فرقہ وارایت کے خاتمہ کے لیے رواداری سے کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اراکین کونسل نے آزادکشمیر میں فرقہ ورایت کے خاتمہ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار کو سراہتے ہوئے آئندہ بھی بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس کے اختتام پر چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل وچیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان اور وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوار الحق نے اراکین کونسل کو اپنی تین سالہ مدت کی تکمیل پر اعزازی شیلڈز بھی دیں۔ اجلاس میں مقبوضہ جموںوکشمیر میں جاری بھارتی مظالم، لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کی مذمت اور پاکستان میں حالیہ دہشتگردی کی لہر تشویش اور اس دوران افواج پاکستان کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور فتنۃ الخوارج کی سرکوبی کے لیئے قرارداد ہا منظور کی گئیں۔جبکہ اجلاس کے اختتام پر ملک کی سلامی، کشمیر اور فلسطین کی آزادی اور شہدا کے درجات کی بلندی کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی۔
مظفرآباد(پی آئی ڈی)07اپریل2025
اسلامی نظریاتی کونسل آزادجموں وکشمیر کی موجودہ کونسل کا الوداعی اجلاس پیر کے روز چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل وچیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی زیر صدارت سپریم کورٹ بلڈنگ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر چوہدری انوار الحق نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور خطاب کیا۔ اجلاس میں اراکین کونسل مفتی سید کفایت حسین نقوی، مولانا سعید یوسف خان، مولانا صاحبزادہ پیر محمد حبیب الرحمن محبوبی، مولانا قاضی محمود الحسن اشرف، مولانا مفتی محمد حسین چشتی، مولانا مفتی محمد عارف، مولانا الطاف حسین سیفی، مولانا قاری محمد اعظم عارف،سیکرٹری مذہبی امور سردار ظفر خان، سیکرٹری قانون چوہدری محمد سجاد، سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل حافظ رحمت اللہ تصور ودیگر متعلقہ حکام بھی شریک ہوئے۔اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل وچیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا کہ آج موجودہ کونسل کا الوادعی اجلاس ہے جس میں شرکت پر میں اراکین کونسل کی جانب سے وزیرا عظم آزاکشمیر کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ سربراہ ریاست اور حکومت کے اس طرح کے آئینی و خصوصی ادارہ جات کے اجلاس ہا میں شرکت کرنے سے انہیں نہ صرف ادارہ جات کی کارکردگی سے آگاہی حاصل ہوتی ہے بلکہ ادارہ جات کی اہمیت و افادیت میں بھی اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ موجودہ کونسل کی تشکیل اپریل 2022 میں تین سال کے لیئے ہوئی اور آج اس کونسل کا آخری دن اور الوداعی اجلاس ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کا یہ آزاد خطہ 1947 میں ریاست کے لوگوں نے بزور بازو برصغیر میں دو قومی نظریہ کی اساس پر آزاد کروایا تا کہ یہاں پر غالب مسلمان اکثریتی آبادی بغیر جبر کے اسلامی طرز زندگی اور معاشرت اپنا سکیں۔ آزاد ریاست جموں و کشمیر کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اسلامی دنیا میں سعودی عرب کے بعد پہلی بار یہاں اسلامی تعزیراتی قوانین نافذ کیے گئے۔ 1974ء میں نافذ کردہ ایکٹ کے تحت قتل، ضرر اور سرقہ جیسے جرائم پر اسلامی سزائیں مقرر کی گئیں۔ اسی تسلسل میں آزاد کشمیر زکوٰۃ ایکٹ 1974ء اور آزاد کشمیر زکوٰۃ پیداوار اراضی ایکٹ 1974ء کا نفاذ بھی عمل میں آیا۔ اسلامی اصولوں کے مطابق ان قوانین کے اطلاق کے بعد حکومت کو غیر معمولی نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جن کے حل کے لیے ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی جو اسلامی قوانین کی تعبیر و تشریح میں معاون ثابت ہو۔ ریاست کے معرضِ وجود میں آنے کے بنیادی مقاصد کے حصول کی طرف ایک اہم سنگِ میل 08 جون 1978ء ہے جب اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی طرز پر آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ آئین کے مطابق آزاد ریاست میں کوئی بھی قانون سازی اسلامی تعلیمات،فلسفہ اور اصولوں کے منافی نہیں کی جائے گی اور ان تمام نافذ العمل قوانین کو اسلام کی اُن تعلیمات سے ہم آہنگ کیا جائے گا جو قرآن و سنت میں بیان کی گئی ہیں۔ اِن آئینی مقاصد کی تکمیل کے لیئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرز پر سال 1978ء میں آزاد ریاست میں “اسلامی نظریاتی کونسل “کا قیام عمل میں لایا گیا تا کہ حکومت اس کونسل کی مشاورت اور سفارشات کی روشنی میں نہ صرف قانون سازی اسلام کی تعلیمات کے مطابق کرے گی بلکہ ریاست کے باشندگان کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنے اور اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیئے بھی عملی اقدامات کرے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کونسل کے قیام سے لے کر تاحال جہاں اس کونسل کی سربراہی چیف جسٹس صاحبان سپریم کورٹ کرتے چلے آرہے ہیں وہیں اس کونسل میں آزاجموں وکشمیر کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے صاحب تحقیق، صاحب الرائے جید علماء و مشائخ بطور رکن خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ موجودہ کونسل بھی مستند صاحب الرائے شخصیات پر مشتمل ہے جن کی بدولت نہ صرف کونسل اپنا کام مؤثر انداز میں کر رہی ہے بلکہ کونسل کے فورم سے آزادکشمیر میں بین المسالک ہم آہنگی بھی مثالی رہی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ آزادجموں وکشمیر عبوری آئین 1974ء میں تیرہویں ترمیم کے ذریعہ اس کونسل کو آئینی ادارہ قرار دیا جا چکا ہے۔ آئینی حیثیت حاصل ہونے کے بعد اس کونسل کی اہمیت پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعہ آزادجموں وکشمیر عبوری آئین 1974ء میں
آرٹیکل 32 کے علاوہ آرٹیکل3۔اے تا 3۔ جے بطور اساسی اصول شامل ہیں۔ بالخصوص 3۔سی کہ جس کے تحت ریاست نے عہد کیا ہے کہ وہ باشندگان ریاست کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کے لیئے موثراقدامات کرے گی۔
یہ عہد آزاد جموں و کشمیر میں اسلامی قوانین کی عملداری اور ان کے استحکام کی جانب ایک غیر معمولی پیش رفت ہے جو یہاں اسلامی تشخص و اقدار کی ترویج اور شرعی قوانین کی پاسداری کے حوالے سے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل جسے 2018 میں آئینی حیثیت بھی عطا کی گئی، آج بھی ان ہی وسائل اور سٹاف کے ساتھ آئینی فرائض انجام دے رہی ہے جو سال 1978ء میں فراہم کیئے گئے اور جنہیں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان250 سے زائد عملہ کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ وسائل اور سٹاف کی کمی کے باعث کونسل کا تحقیقاتی کام اور قواعد کے تحت تواتر کے ساتھ اجلاس ہا کے انعقاد میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ قیام سے لیکر ہی ان مشکلات کے تدارک کے لیئے صدور گرامی اور وزراء اعظم (وقت) کی سربراہی میں متعدد اعلیٰ سطحی اجلاس ہا کے دوران اصولی فیصلہ جات کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کونسل نے بھی وسائل،سٹاف اور دفتری مکانیت کی شدت سے کمی محسوس کرتے ہوئے اس پر پیش رفت جاری رکھی۔ کونسل کے لیئے یہ امر باعث اطیمنان ہے کہ آپ نے کونسل کے تصفیہ طلب امور کو کابینہ کے اجلاس میں پیش کرنے کے علاوہ کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ کونسل یقین رکھتی ہے کہ ان شاء اللہ کونسل کی جانب سے پیش کردہ انتہائی ناگزیر امور آپ کی خصوصی توجہ اور دلچسپی سے یکسو ہوں گے جس سے نہ صرف کونسل کی مشکلات میں کمی واقع ہو گی بلکہ کونسل مزید بہتر انداز میں اپنے آئینی فرائض ادا کر سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں معزز اراکین کونسل کا مشکور ہوں کہ جنہوں نے مراعات کی پرواہ کیئے بغیر قومی فریضہ کے طور پر ریاست میں نافذ العمل قوانین کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے،اسلامی معاشرہ کی تشکیل اوربین المسالک مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیئے اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کیا۔ یہ اجلاس محض ایک اختتام نہیں ہے بلکہ اس کونسل کے روشن اور فعال مستقبل کے لیے سنگِ میل اور آغاز کی حیثیت رکھتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل انتہائی اہم اور آئنی ادارہ ہے۔ آزادکشمیر میں بین المسالک ہم آہنگی اور فرقہ واریت کے خاتمہ میں اس ادارے کا کلیدی کردار ہے۔ اس ادارہ میں کام کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ اس ادارے کے وقار میں اضافے کے لیے حکومت اسکی ضروریات شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم بنیادوں پر پوری کرے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کونسل کے اراکین نے اپنی تین سالہ مدت میں بہترین انداز میں کام کیا اور کسی بھی معاملہ پر تنازعہ نہیں ہوا جس پر تمام اراکین کونسل مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس اس ادارے کی بہترین اور اس کے وقار کے لیے ہم سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ ہمیں ریاست کے معاشی مسائل کا ادراک ہے۔ لیکن ادارے ریاست کی پہچان ہوتی ہیں انکی عمارتیں اداروں کے وقار میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں۔ حکومت اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی ضروریات پوری کرنے کے اقدامات کرے تاکہ اراکین کونسل کو بیٹھنے اور کام کرنے کے لیے سازگار ماحول میسر آ سکے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آزادکشمیر کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل کی دفتری مکانیت اور افرادی قوت سمیت تمام ضروریات پورا کرنے کی یقین دہانی کو اراکین کونسل کی جانب سے سراہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی جملہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق نے کہا کہ کہ ریاست میں مذہبی ہم آہنگی اور اتفاق واتحاد پیدا کرنے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے. آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظریاتی کونسل ایک ایسا ادارہ ہے جس کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام موجود ہوتے ہیں. ان خیالات کا اظہار وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق نے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر و چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی زیرصدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے الوداعی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا. آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظریاتی کونسل کے الوداعی اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی. وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل انتہائی اہم ادارہ ہے. انہوں نے کہا کہ کونسل سے آنے والی سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے. وزیراعظم نے کہا کہ کونسل کے اراکین کی جانب سے تیار کی جانے والی سفارشات اور ان کی خدمات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں. انہوں نے کہا کہ معاشرے میں بہتری لانے کیلئے علماء کرام کا کردار قابل تحسین ہے. وزیراعظم نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظریاتی کونسل کے لئے ترجیحی بنیادوں پر مکانیت, سٹاف اور فنڈز مہیا کیئے جائیں گے.اجلاس سے اپنے خطاب میں اراکین کونسل نے بین المسالک ہم آہنگی اور فرقہ وارایت کے خاتمہ کے لیے رواداری سے کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اراکین کونسل نے آزادکشمیر میں فرقہ ورایت کے خاتمہ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار کو سراہتے ہوئے آئندہ بھی بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس کے اختتام پر چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل وچیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان اور وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوار الحق نے اراکین کونسل کو اپنی تین سالہ مدت کی تکمیل پر اعزازی شیلڈز بھی دیں۔ اجلاس میں مقبوضہ جموںوکشمیر میں جاری بھارتی مظالم، لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کی مذمت اور پاکستان میں حالیہ دہشتگردی کی لہر تشویش اور اس دوران افواج پاکستان کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور فتنۃ الخوارج کی سرکوبی کے لیئے قرارداد ہا منظور کی گئیں۔جبکہ اجلاس کے اختتام پر ملک کی سلامی، کشمیر اور فلسطین کی آزادی اور شہدا کے درجات کی بلندی کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی۔
مظفرآباد (پی آئی ڈی)7اپریل 2025
اسلامی نظریاتی کونسل آزادجموں وکشمیرکے الوداعی اجلاس میں سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل حافظ رحمت نے کونسل کی مجموعی و گزشتہ تین سالہ کارکردگی پیش کی انہوں نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی و مشاورتی ادارہ ہے جو صدرِ ریاست، حکومت، اسمبلی یا کونسل کے اراکین کی واضح اکثریت کی درخواست پر کسی بھی مجوزہ قانون کی اسلامی احکام سے مطابقت کا جائزہ لے سکتا ہے۔کونسل کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ حکومت کو ایسی تدابیر پیش کرے کہ جن کی رو سے نافذ العمل قوانین کو اسلامی احکام کے عین مطابق ڈھالنے کے علاوہ ایسے احکام کی موزوں شکل میں شیرازہ بندی کرنا کہ جنہیں قانونی طور پر نافذ کیا جا سکے۔ آزادجموں وکشمیر اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض اور حیثیت وہی ہے جو اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی ہے۔ کونسل اپنے فرائض قواعد کار مجریہ 1978ء کے تحت انجام دیتی ہے۔ قواعدِ کار 1978کونسل کے انتظامی، مشاورتی، اور عملی امور کو منظم کرنے کا ایک مستند فریم ورک فراہم کرتے ہیں کہ جن تحت کونسل اسلامی قوانین کی روشنی میں ریاست کی قانون سازی میں مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔انہوں نے کہاکہ کونسل کے اجلاس ہا کی کارروائی کے لیئے قواعد کار میں جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس کے مطابق کونسل کی سفارشات اجلاس میں حاضر اراکین کی کثرت رائے سے حتمی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی مسئلہ قانونی، اقتصادی، سیاسی یا انتظامی اہمیت کا حامل ہو تو کونسل کے مشورہ دینے سے قبل جناب چیئرمین کونسل کسی ایسے فرد سے جو اپنے عہدے یا تجربے کے لحاظ سے ماہرانہ رائے دینے کی صلاحیت رکھتا ہو،اُس سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ چیئرمین کونسل کسی بھی شخص کو بحیثیت مبصر کونسل کے اجلاس میں شریک ہونے اور بحث میں حصہ لینے کی اجازت دے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سال 2005 ء کے تباہ کن زلزلہ کے دوران کونسل کے آخری 15 اجلاس ہا کا زیر طبع ریکارڈ ضائع ہونے کے باعث اُن اجلاس ہا میں زیر غور لائے گئے قوانین پر سال 2007ء سے مرحلہ واردوبارہ غور و خوض کا آغاز کیا گیا اور مجموعی کارکردگی کے حوالہ سے کونسل کے اب تک 108 باقاعدہ اجلاس ہا کے علاوہ متعدد خصوصی اجلاس ہا بھی منعقد کیئے جا چکے ہیں جن کے دوران کونسل نےAdoptation of Laws ایکٹ کے تحت اور قانون ساز اسمبلی آزادجموں وکشمیر سے پاس ہونے والے مختلف نافذ العمل قوانین پر کونسل ایکٹ 1997 کی دفعہ 5(c) کے تحت شق وار تفصیلی غور کرنے کے بعد تقریباً 200 سے زائد مختلف فوجداری، دیوانی، عائلی اور دیگر نوعیت کے قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کے لیئے حتمی سفارشات حکومت کو ارسال کر رکھی ہیں۔اسی طرح کونسل ایکٹ 1997 کی دفعہ 4 کے تحت 50 سے زائد حکومتی ریفرنسز پر کونسل حکومت کی شرعی راہنمائی کر چکی ہے نیز کونسل ایکٹ 1997 کی دفعہ 5(a)کے تحت باشندگان ریاست کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیئے مختلف سماجی امور بشمول اسلامی تعلیمات کے مطابق خود احتسابی کا شعور بیدار کرنے، دفتری اوقات کار کی پابندی کو یقینی بنانے، تجارتی معاملات میں شرعی احکامات کی عملداری، شادی بیاہ کی تقریبات میں اسلامی احکامات کے نفاذ، باہمی رواداری اور برداشت کو فروغ دینے، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے،طبقاتی نظامِ تعلیم کے خاتمے، جدید اور پیچیدہ عائلی مسائل کے حل، اولاد کی تربیت، سرکاری آفیسران اور اہلکاران میں دیانتداری کے فروغ اور دیگر معاشرتی برائیوں کے خاتمے سے متعلق 150سے زائدجامع سفارشات بھی حکومت کو ارسال کر چکی ہے جن کو 10رپورٹس میں شائع کیا جا چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ کونسل نے بھی محدود وسائل اور مشکلات کے باوجود اپنے عرصہ تقرری میں اہم قانونی، سماجی اور معاشرتی امور کی نسبت اپنی سفارشات حکومت کی راہنمائی کے لیئے ارسال کی ہیں جن میں سے بذیل قابل ذکر ہیں۔آزاد جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے مصنفین کی جانب سے سیرت النبی ﷺ پر تحریر کی گئی کتب کے معیار کا جائزہ لینے اور ان کی بطور اول،د وم، سوم درجہ بندی کرنے کے لیئے دسمبر 2022ء میں حکومت نے جناب چیئرمین کونسل آپ کی سربراہی میں اور آپ کی جانب سے نامزد کردہ چار معزز اراکین کونسل پر مشتمل” کتب جائزہ کمیٹی” تشکیل دی۔ کمیٹی نے 7,000 (سات ہزار) سے زائد صفحات پر مشتمل 36 کتب کے جائزہ کے لیئے بین الاقوامی مسلمہ تحقیقی اصولوں (TORs) کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انتہائی عرق ریزی سے دوبار مطالعہ کرنے کے بعد تقریباً ایک سال کے عرصہ میں کثرت رائے سے جامع سفارشات مارچ 2024 میں حکومت کو ارسال کیں۔ انہوں نے کہا کہ کونسل کے ابتدائی عشروں میں تاریخی روایت رہی ہے کہ پاکستان اور آزادکشمیر کے یکساں، قانونی، سماجی و مذہبی مسائل پر غور و خوض کے لیئے ہر دو کونسل ہا کے اسلام آباد اور مظفرآباد میں مشترکہ اجلاس ہا منعقد ہوتے رہے ہیں جن کے دوران پیش آمدہ قانونی و سماجی امور کا بحث و تمحیص کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قابل عمل مشترکہ حل تلاش کیا جاتا رہا۔ اس تاریخی روایت کا تسلسل اسلامی نظریاتی کونسل آزادجموں وکشمیر کے فنڈز کی کمی کے باعث تقریباً تین عشروں سے معطل ہے۔ سال 2024 کے اوائل میں کونسل نے اس روایت کو از سرِ نوع شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ابتدائی طور پر مشترکہ بریفنگ اور مستقبل میں اس سلسلہ کو شروع کرنے کی تفصیلات طے کرنے کے لیئے ہر دو کونسل ہا کے چیئرمین صاحبان کی سربراہی میں وفود کی سطح پر جولائی 2024 میں اسلام آباد میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے کمپلیکس میں اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں دونوں اداروں کے مابین مستقبل میں مزید مشترکہ اجلاس منعقد کرنے اور پاکستان و آزاد کشمیر کے معاشرتی، معاشی اور عوامی و فلاحی مسائل پر متفقہ سفارشات مرتب کرنے پر اتفاق کیا گیا اس اقدام کا مقصد اسلامی تشخص کے فروغ، سماجی اصلاحات اور قانون سازی میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے، تاکہ دونوں خطوں میں یکساں اسلامی اصولوں پر مبنی قانون سازی ممکن ہو سکے۔اس مشترکہ اجلاس کو قومی سطح پر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں سراہا گیا۔ اس کے علاوہ کونسل نے اپنے تین سالہ عرصہ تقرری کے دوران قانون وراثت مجریہ 1988، جملہ سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی ادارہ جات میں قرآن مجید کی تلاوت اور درسِ حدیث کا باقاعدگی سے اہتمام، سرکاری دفاتر میں تلاوت و درسِ قرآن کی بحالی کا اہتمام،آزادجموں وکشمیر امتناعِ ازدواج اطفال کا بل 2021ء،قانون انتقال جائیداد (ترمیمی) ایکٹ، 2021ء،تعلیمی پالیسی 2023-40 اورمحکمہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اور کیریکٹر ایجوکیشن فاؤنڈیشن اسلام آباد کے مابین زیر کار مسودہ “مفاہمتی یادداشت” کی نسبت مفصل سفارشات مرتب کیں۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں کونسل عوام الناس میں اسلامی طرزِ زندگی کے فروغ کے لیئے جدید مذہبی، سماجی و معاشرتی چیلنجز کے حل کے لیئے اسلامی احکامات کی روشنی میں شرعی راہنمائی کی فراہمی،سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، اور جدید ذرائع ابلاغ کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کی نسبت سفارشات، نکاح، خاندانی نظام کے تحفظ اور وراثت سے متعلق اسلامی احکام کے نفاذ کے لیئے عملی اقدامات کی نسبت سفارشات،معاشرتی برائیوں جیسے رشوت، جھوٹ، اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے خاتمے کی نسبت سفارشات،سوشل میڈیا کے اِس پُر فتن دور میں غیر مصدقہ اور من گھڑت معلومات کی اشاعت سے محض شہرت حاصل کرنے کے لیئے افراد اور سرکاری اداروں کی کردار کُشی اور شعبہ صحافت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیئے حکومتی اداروں کی راہنمائی کی نسبت سفارشات،ایک منظم، پُرامن اور اسلامی اصولوں پر مبنی معاشرہ تشکیل دینے، اسلامی تشخص اور اقدار کی ترویج کے لیئے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشگردی کے اسباب اور سدِ باب، فرقہ واریت، انتہا پسندی، اداروں کے خلاف منافرت کے خاتمہ اور تعلیمی ادارہ جات میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی کردارسازی پر غور و سفارشات کے لیئے نامور ریسرچ سکالرز،ماہرین تعلیم و فن، علماء و مشائخ کی معاونت سے سیمینارز و کنونشز کا انعقاد کرنے کے اہداف مقرر کر رکھے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
مظفرآباد (پی آئی ڈی)7اپریل 2025
اسلامی نظریاتی کونسل آزادجموں وکشمیر کے اجلاس میں مولانا محمود الحسن اشرف اور مولانا محمد الطاف حسین سیفی نے دو الگ الگ قراردادیں پیش کیں جنہیں اراکین کونسل نے مشترکہ طور پر منظور کر لیا۔ مولانا محمود الحسن اشرف کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل آزادجموں وکشمیر کا یہ اجلاس بھارتی قابض افواج کی جانب سے کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے پاک فوج کے جوانوں اور سویلین کی شہادت،بے گناہ اور نہتے شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے، املاک کو نقصان پہنچانے، بھارتی قابض افواج کے بڑھتے ہوئے مظالم اور کنٹرول لائن پر چھیڑی گئی غیر اعلانیہ جنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔قرار داد میں مزید کہا گیاکہ کونسل کی رائے میں ہندوستان میں برسرِاقتدار انتہا پسند قیادت اسطرح کے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور پست ہتھکنڈوں کے ذریعے نہ تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیئے بر سرِ پیکار کشمیریوں کی تحریک کو کچل سکتی ہے اور نہ ہی آزادی کے اس بیس کیمپ میں بسنے والوں کو حد متارکہ کے اس پار بھارتی قابض افواج کی سفاکی اور بہیمانہ مظالم کے شکار اپنے بھائیوں کی تائید و حمایت سے باز رکھ سکتی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ کونسل کا یہ اجلاس اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور دنیا کی تمام انصاف پسند قوموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بھارتی افواج کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی اور مقامی آبادی پر بلا اشتعال بمباری کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق، حق خود ارادیت دلوانے میں اپنا مثبت و مؤثر کردار ادا کریں۔ مولانا محمد الطاف سیفی کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ اجلاس ملک میں فتنۃ الخوارج کی جانب سے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے المناک واقعات، خصوصاً جعفر ایکسپریس کو اغوا کر کے نہتے مسافروں اور مسلح افواج وسیکیورٹی اداروں کو نشانہ بنا کر قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع، شہادتوں اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں پر گہرے دکھ، رنج و الم اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان ظالمانہ، سفاکانہ اور غیر انسانی کارروائیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ یہ اجلاس اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسلام سراسر امن، سلامتی، محبت، رواداری اور انسان دوستی کا مذہب ہے، اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ دہشت گردی، قتل و غارت گری اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے عناصر نہ صرف اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ ملکی سلامتی، اتحاد اور استحکام کے بھی دشمن ہیں۔قراردادمیں کہا گیا کہ کونسل کا یہ اجلاس اس عذم کا اعادہ کرتا ہے کہ پوری قوم کو افواجِ پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کے ساتھ مل کر ملک کو اس فتنہ و فساد سے پاک کرنے کے لیے متحد و یکجا ہونا ہوگا۔ کونسل مطالبہ کرتی ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے نہ صرف ملکی سطح پر مربوط اور مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دہشت گرد عناصر کے خلاف مربوط لائحہ عمل اپنایا جائے۔ قرارد اد میں مزید کہا گیا کہ کونسل کا یہ اجلاس علماء و مشائخ، دینی و سیاسی قیادت،دانشوروں، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پرسنز اور عوام الناس سے اپیل کرتا ہے کہ ملک میں فتنہ و فساد برپا کرنے والے ان دہشت گردعناصر کے خلاف بھرپور اجتماعی موقف اپنائیں اور ان کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ریاستی اداروں کا ہر ممکن ساتھ دیں۔